چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
چلمن تو بیچ میں ہے اشارے ہوئے تو کیا
بوسہ دہی کا لطف ملا حسن بڑھ گیا
رخسار لال لال تمہارے ہوئے تو کیا
بے پردہ منہ دکھا کے مرے ہوش اڑاؤ تم
پردے کی آڑ سے جو نظارے ہوئے تو کیا
مجھ کو کڑھا کڑھا کے وہ ماریں گے جان سے
دلبر ہوئے تو کیا مرے پیارے ہوئے تو کیا
اے جاں مقابلہ مرے ہاتھوں سے کب ہوا
جوبن ترے ابھر کے کرارے ہوئے تو کیا
الفت کا لطف کیا جو بغل ہی نہ گرم ہو
وہ دل میں رہنے والے ہمارے ہوئے تو کیا
تاثیر دے دعا میں خدا ہے یہی دعا
اونچے جو دونوں ہاتھ ہمارے ہوئے تو کیا
بوسہ نہ دے وہ مجھ کو تو میں اس کو دل نہ دوں
اس گورے ہاتھ سے جو اشارے ہوئے تو کیا
تم سوؤ پھیل کے پھولوں کی سیج پر
فرقت میں ہم جو گور کنارے ہوئے تو کیا
سینہ ملا کے سینہ سے دل میں جگہ کرو
پھرتے ہو جوبنوں کو ابھارے ہوئے تو کیا
کب کھیلنے پکڑ کے ہوا میں سے لائے وہ
جگنو جو آہ دل کے شرارے ہوئے تو کیا
اے جاں ہے تیری زلف پریشاں کا حسن اور
حوروں کے بال ہیں جو سنوارے ہوئے تو کیا
آنکھیں کھلی بھی ہوں تو وہی سامنے رہے
آنکھوں کو بند کر کے نظارے ہوئے تو کیا
لاکھوں مزے ملیں مرے لب سے اگر ملیں
وہ گورے گال آنکھ کے تارے ہوئے تو کیا
یک بوسہ اور لونگا عرق منہ سے پوچھ کر
وہ آب آب شرم کے مارے ہوئے تو کیا
مائلؔ نہ ہو وصال تو کیا عشق کا مزا
معشوق دور سے وہ ہمارے ہوئے تو کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |