کسی کا کام دل اس چرخ سے ہوا بھی ہے
Appearance
کسی کا کام دل اس چرخ سے ہوا بھی ہے
کوئی زمانہ میں آرام سے رہا بھی ہے
کسی میں مہر و محبت کہیں وفا بھی ہے
کوئی کسی کا زمانہ میں آشنا بھی ہے
کوئی فلک کا ستم مجھ سے بچ رہا بھی ہے
جنا نصیب کوئی مجھ سا دوسرا بھی ہے
برا نہ مانیو میں پوچھتا ہوں اے ظالم
کہ بے کسوں کے ستائے سے کچھ بھلا بھی ہے
جو پختہ مغز ہیں وے سوز دل نہیں کہتے
کسی نے شمع سے جلنے میں کچھ سنا بھی ہے
تم اس قدر جو نڈر ہو کے ظلم کرتے ہو
بتاں ہمارا تمہارا کوئی خدا بھی ہے
تو قاتلوں سے لگاتا ہے دل کو کیوں تاباںؔ
کہ ان کے ہاتھ سے جیتا کوئی بچا بھی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |