کسی کی نیک ہو یا بد جہاں میں خو نہیں چھپتی
Appearance
کسی کی نیک ہو یا بد جہاں میں خو نہیں چھپتی
چھپائے لاکھ خوشبو یا کوئی بدبو نہیں چھپتی
زباں پر جب تلک آتی نہیں البتہ چھپتی ہے
زباں پر جب کہ آئی بات اے گل رو نہیں چھپتی
یہاں تو تجھ کو سو پردے لگے ہیں اہل تقوی سے
بھلا رندوں سے کیوں اے دختر رز تو نہیں چھپتی
سلیقہ کیا کرے اس میں کوئی بیتابی جاں کو
چھپاؤ سو طرح جب دل ہو بے قابو نہیں چھپتی
حجاب اس میں کہاں ہے بے حجابی جس کی عادت ہو
چھپا کر لاکھ پیوے گر کوئی دارو نہیں چھپتی
رخ روشن کو تم کیوں چھوڑ کر زلفیں چھپاتے ہو
چمک رخ کی چھپائے سے تہ گیسو نہیں چھپتی
یہ ریش و جبہ و دستار زاہد کی بناوٹ ہے
طبیعت بے تکلف جس کی ہو یکسو نہیں چھپتی
کلام اپنا عبث تو اہل دانش سے چھپاتا ہے
جہاں میں عیشؔ طرز شاعر خوش گو نہیں چھپتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |