گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
Appearance
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
زیر برقع تو نے کیا دکھلا دیا
جمع ہیں ہر سو تماشائی بہت
ہٹ پہ اس کی اور پس جاتے ہیں دل
راس ہے کچھ اس کو خود رائی بہت
سرو یا گل آنکھ میں جچتے نہیں
دل پہ ہے نقش اس کی رعنائی بہت
چور تھا زخموں میں اور کہتا تھا دل
راحت اس تکلیف میں پائی بہت
آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
وصل کے ہو ہو کے ساماں رہ گئے
مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت
جاں نثاری پر وہ بول اٹھے مری
ہیں فدائی کم تماشائی بہت
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
کر دیا چپ واقعات دہر نے
تھی کبھی ہم میں بھی گویائی بہت
گھٹ گئیں خود تلخیاں ایام کی
یا گئی کچھ بڑھ شکیبائی بہت
ہم نہ کہتے تھے کہ حالیؔ چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |