ہے آرزو یہ جی میں اس کی گلی میں جاویں
Appearance
ہے آرزو یہ جی میں اس کی گلی میں جاویں
اور خاک اپنے سر پر من مانتی اڑاویں
شور جنوں ہے ہم کو اور فصل گل بھی آئی
اب چاک کر گریباں کیوں کر نہ بن میں جاویں
بے درد لوگ سب ہیں ہمدرد ایک بھی نہیں
یارو ہم اپنے دکھ کو جا کس کے تئیں سناویں
یہ آرزو ہماری مدت سے ہے کہ جا کر
قاتل کی تیغ کے تئیں اپنا لہو چٹاویں
خجلت سے خوں میں ڈوبے یا آگ سے لگے اٹھ
لالہ کے تئیں چمن میں گر داغ دل دکھاویں
بے اختیار سن کر محفل میں شمع رو دے
ہم بات سوز دل کی گر ٹک زباں پہ لاویں
یہاں یار اور بردار کوئی نہیں کسی کا
دنیا کے بیچ تاباںؔ ہم کس سے دل لگاویں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |