ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
Appearance
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
ہیں دور جام اول شب میں خودی سے دور
ہوتی ہے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں
یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
اک عمر چاہیئے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں
بس ہو چکا بیاں کسل و رنج راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں
کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
حالیؔ نشاط نغمہ و مے ڈھونڈھتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |