This page has been validated.
بیوی کی تربیت از خواجہ حسن نظامی
اخباروں میں ان کو شائع کرایا۔ اخباروں کے علاوہ جن لائق اور مشہور دانش مند مستورات سے خواجہ بانو کی خط وکتابت تھی، ان سے بھی یہ سوالات بھیج کر جواب لکھنے کی درخواست کی گئی۔ اس پر سینکڑوں جواب خواجہ بانو کے پاس آئے اور انھوں نے مجھ کو سنائے یا دکھائے۔ ہم دونوں کا ارادہ تھا کہ ان جوابات کو فوراً درست کرکے ایک کتاب کی صورت میں چھپوا دیا جائے؛ مگر ایک تو ہم ہندوستانی ہیں، دوسرے (آج کل کے) مسلمان ہیں، جو اکثر اپنے ارادوں کے کچے اور بودے ہوا کرتے ہیں۔ سوچتے سوچتے غور کرتے کرتے تین برس ہو گئے اور کتاب تیار نہ ہونے پائی۔ خواجہ بانو کا اس میں کچھ قصور نہیں۔ وہ اپنے بچوں کی خبر گیری اور میرے پاس آنے والے بیشمار مہمانوں کے انتظامِ مدارات اور گھر داری کے ہزاروں بکھیڑوں کے باوجود لکھنے پڑھنے کا وقت نکال لیتی تھیں اور اس کتاب کی تیاری کا تقاضا کرتی تھیں؛ مگر میں دوسری کتابوں کی تصنیف و تالیف اور صدہا پراگندہ کاموں کے سبب آج کل کرکر کے ٹال دیتا تھا۔ ٹالنا بہت سخت لفظ ہے۔ میں تو عورتوں کی تعلیمی خدمت کو اپنا سب سے بڑا فرض سمجھتا ہوں۔ پھر اس ضروری کام کو کیوں ٹالتا۔ ٹالنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے وقت اور فرصت کے خیال پر کتاب کی تیاری کو ملتوی کردیا تھا۔
آدمی کام کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی مصیبت اور پریشانی اس کو روک نہیں سکتی۔ پھر بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ تین سال ایسے سخت تھے کہ میں نے